ایک ہی رونا ۔۔۔ دھاندلی دھاندلی اور دھاندلی

What is Rigging in Urdu

دھاندلی ہوتی کیا ہے؟

دھاندلی انتخابات میں ایک غیر قانونی مداخلت کا نام ہے کہ جس میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کے ووٹوں کے شیئر میں اضافہ کرکے یا حریف امیدواروں کے ووٹوں کے شیئر کو دبا کر انتخابات کے حقیقی نتائج کو بدل دیا جاتا ہے۔ ووٹوں کا خریدنا، غلط معلومات فراہم کرنا، پروکسی ووٹ کا غلط استعمال کرنا، گمراہ کن یا پریشان کن بیلٹ پیپرز، حق راہے دہی ضبط کرنا، دھمکانا اور بیلٹ کو تباہ کر دینا جیسے طریقے کار دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس انتخابی دھوکہ دہی یا دھاندلی کی نوعیت ہر ملک میں مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کے الیکشن 2018ء کی کہ یہاں ہر بار دھاندلی کا رونا ہی کیوں رویا جاتا ہے۔

میں نے اپنی زندگی میں تین انتخابات دیکھے ہیں اور تب سے اب تک ہر بار دھاندلی کا رونا رویا جاتا ہے۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جیسے جیسے میں جوان ہوئی ہوں ویسے ہی دھاندلی بھی جوان ہوئی ہے۔ جس پارٹی کی ہار ہوئی وہ دھاندلی کو لے کر ملک کے نظام پر انگلیاں اٹھاتی رہی اور اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پہ ڈالتی رہی۔ ہم ایسے ملک کے حکمران کی پیروی کرتے ہیں جو کہ اناؤں کے مجسمے ہیں، جن کے ضمیر ہار کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔ جو پارٹی ہارتی ہے وہ دھاندلی کا رونا شروع کر دیتی ہے اور اسطرح سے 1947ء سے لے کر اب تک دھاندلی دھاندلی اور دھاندلی کے الفاظ ہی سنے جاتے رہے ہیں۔ اور دھاندلی کیساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوج جس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اس کو جیتوا دیتی ہے۔ دھاندلی کے اس گھناؤنے کھیل نے پوری دنیا میں الیکشن کمیشن اور جمہوریت کو بدنام کر دیا ہے۔

2018ء کے الیکشن اور دھاندلی کا رونا:۔

اگرچہ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کے کچھ شواہد ملے ہیں۔ لیکن مکمل طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ یورپین یونین کے تبصرہ نگاروں کے مطابق الیکشن شفاف ہیں۔ لیکن ہم اور آپ مکمل طور پر اس پورے سلسلے سے انجان ہیں آیا کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں۔ آج جہاں نواز شریف کھڑے ہیں کل یہاں عمران خان تھے اور کل جہاں عمران خان کھڑے تھے وہاں نواز شریف ہیں۔ آیا کیا واقعی ہی 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی؟ اس کی تحقیق ہونی چاہیے تاکہ ہم اور آپ صحیح صورت حال سے باخبر ہو سکیں!

دھاندلی آخر کیوں؟

ہر پاکستان کے شہری کے دماغ میں ایک ہی سوال "دھاندلی آخر کیوں" لیکن اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ جو بھی پارٹی فتح حاصل کرتی ہے وہ ہمیشہ شفاف الیکشن کا ڈھول بجاتی ہے اور ہارنے والی "دھاندلی" کا ۔۔۔ لیکن جو بھی جیتا پاکستان ہمیشہ ہارا ہے۔ جہاں ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتار دنیا میں ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے، وہاں 1947ء سے انگوٹھا سسٹم رائج ہے۔ جہاں ہم بڑی بڑی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں، 22 ارب سے زائد کا خرچ کرسکتے ہیں لیکن الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے کمپیوٹر سسٹم کا استعمال شاید ممکن نہیں بنا پا رہے ہیں۔

دھاندلی کی مسخ شدہ تاریخ:۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلی کی ایک لمبی داستان ہے، جس کا سلسلہ 60 کی دہائی میں ایوبی دور سے ہوا۔ جب 1965ء میں ڈِکٹیٹر ایوب خان نے بانی پاکستان قائداعظم کی بہن کو شکست دینے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنائے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں دھاندلی بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جب تمام سیاسی پارٹیوں نے سڑکوں پر نکل کر بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے ہی سکون کا سانس لیا۔ پھر 90 کی دہائی کے انتخابات کسے یاد نہیں ہیں، جب نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دیا گیا تھا۔ اور اس بھاری مینڈیٹ کے انتخاب سے پہلے سب کو ہی پتہ تھا۔ اور 2013ء تحریک انصاف اور عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے، جن کو ثابت نہ کیا جا سکا۔ اور اسی طرح روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی وہی صورت حال ہے، مگر آج الزام لگانے والے وہ ہیں جو اس بدترین صورت حال سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔

دھاندلی سے تو امریکہ بھی نہ بچ سکا:۔

کیا واقعی ہی امریکہ میں دھاندلی ہوئی تھی؟ کیا واقعی امریکہ جسے دنیا کی طاقت مانا جاتا ہے، خود کو دھاندلی سے نہ بچا سکی؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ روس نے امریکہ کے کمپیوٹرز میں گھس کر نتائج کو بدل ڈالا ہے؟ ان تمام کے جوابات تب دیے جاسکتے ہیں جب اس پر پوری تحقیق کی جائے گی۔ لیکن انتخابات کے بعد امریکہ کی موجودہ صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ کا شیرازہ بکھرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ قانون قدرت ہے کہ ہر عروج کے بعد زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آج سے تقریباً دو تین سو برس پہلے اس کی رفتار قدرے کم تھی لیکن اب چونکہ انسان نے خود ہی وقت کی رفتار تیز کرلی ہے لہٰذا عروج و زوال کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہے ۔۔۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب امریکہ کے زوال کا وقت آگیا ہے۔

نیا سسٹم کیوں ضروری ہے:۔

تمام تر صورت احوال کا جائزہ لینے کے بعد اصل ذمہ دار ہمارا بے کار الیکشن کا نظام ہے جو کہ لوگوں کے جذبات اور احساسات کی تذلیل کرتا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا گھناؤنا کھیل آج بھی جاری ہے، اس کو ختم کرنے کیلئے نیا سسٹم بے حد ضروری ہے۔ اداروں اور موجودہ نظام میں تبدیلی کے عمل کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے الیکشن کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔ جدید طریقہ الیکشن کو متعارف کروایا جائے تاکہ آئندہ آنے والے انتخابات میں کم از کم دھاندلی کا رونا نہ رویا جائے۔

عمران خان کا کردار:۔

2018ء کے الیکشن میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جیت ہار کے علاوہ عمران خان نے لوگوں میں شعور کو اجاگر کیا ہے۔ لوگوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے پر اُکسایا۔ ان کی کوششوں کو سراہاتے ہوئے 2013ء کے انتخابات کے اعدادو شمار کے مقابلے میں 2018ء میں %23 ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اب کیا عمران خان پاکستان کی تاریخ کو بدل سکیں گے؟ کیا عمران خان اداروں کو مضبوط کریں گے یاتاریخ ایک بار پھر دہرائی جائے گی ۔۔۔ ان تمام سوالوں کے جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔

Also known as election manipulation or the electoral fraud, the rigging becomes the hot topic in the post-election scenario in almost every democratic state of the world.A party or candidate losing the election almost always complains of vote rigging or illegal interference by the winning opponent.

The vote rigging refers to the stealing of mandate through the exploitation of the polling process for personal advantage. It can be defined as the illegal interference in the electoral process to increase the share of votes in one’s favor.Though some acts of electoral fraud may not be illegal, they are considered morally unacceptable.

Here you can also learn about vote rigging in Urdu language as well.

How Vote Rigging is Carried Out:

There are lots of illegal or immoral means employed by the political opponents to push the victory in their favor. Historically speaking, rigging occurs at multiple levels, with the connivance of the candidates, the parties, the establishment, the state institutions and the polling staff. Ifthe previousgovernment was unable to earn their favor, the state organs and the establishment interfere with the electoral process in the favor of the party of their choice.

The process of rigging can be broadly divided into three main categories, namely, the pre-poll rigging, the poll day-rigging and the post-poll rigging.

Pre-poll Rigging: Manipulating the census, gerrymandering and getting the nomination papers of the rivals rejected are some of the effective tools for pre-poll rigging.

Did you know census is one of the first and most important parts of any electoral process? The number of seats given to a particular settlement (a province or a district) is decided according to the population settled in that place.

So, if the population of an area is shown to be greater or lesser that it actually is, the voting power of the people living over there can be boosted or diluted compared to other areas of the country.

When constituencies are drawn up in such a manner that one political rival is at a position of disadvantage in the polls regardless of their voter support, it is called gerrymandering. It is one of the secret tools to carry out pre-poll rigging.

Poll Day-rigging: After doing their best in pre-poll rigging, the candidates get several opportunities on the polling day to turn the victory in their favor.For example, they can capture the polling booths in the regions they exercise their influence in. It is done by forcing the polling staff to either side with them or keep mum about what is happening in the polling station/room.

Other tools for the poll day-rigging include the manipulation of the vote count, bribing the voters, and the perception manipulation. In the perception manipulation, the political parties and actors impact the electoral process by means of manipulating perceptions with the help of electronic, print and social media. At the same time, dubious surveys and polls may also be used for this purpose.

Vote Rigging in Pakistan – A Historical Perspective:

Vote rigging is not something new in Pakistan; it is an old phenomenon. Whether it is National Assembly elections, local bodies’ elections or polls for provincial assemblies, the electoral fraud has been observed throughout in one form or another.

The practice of stealing the mandate started in 1950s when staggered polls were held for the provincial assemblies of Punjab, NWFP (now Khyber Pakhtunkhwa), Baluchistan, Sindh and the then East Pakistan (now Bangladesh). The public vociferously criticized the blatant rigging of these elections. The protests and uproar in the press and media were so loud that Chaudhary Muhammad Ali, the Prime Minister at that time, had to set up the Electoral Reforms Commission in 1955 in an attempt to make the future elections free, fair and transparent.

Though the recommendations of the Commission were implemented in the elections held thereafter, the political parties and actors later devised and employed new methods to rig the elections.